رشتہ پریشانی ، چاہت ،حیسیت اور حقیقت کا
ہر انسان کو کوئی نہ کوئی پریشانی سے
اپنی زندگی میں دو چار ہونا پڑتا ہے۔ اسے انسانی زندگی کی اہم خصوصیت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
پریشانی کا مقابلہ آدمی کو پہلے سے زیادہ ذہین بنا دیتا ہے
ویسے اگر دیکھا جاۓ تو پریشانی کا بیشتر حصّہ ہماری چاہت سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن چاہت کا رشتہ جب حیسیت سے جدا ہو جاتا ہے تو یہی پریشانی شدید تکلیف میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
اس لیے کہا گیا ہے کہ موجودہ حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے ہم اپنی چاہت کو حیسیت کے مطابق رکھیں۔ اس طرح زندگی جینا آسان ہو جاتا ہے۔ بعض معاملے میں تو زندگی تباہ ہونے سے بچ بھی جاتا ہے۔
*****************************
اسکا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ کوئی شخص چاہت کو حیسیت سے زیادہ رکھے ہیں نہیں۔
ترقی کے لیے چاہت کو ہم تھوڑا سا اپنی حیثیت سے آگے رکھ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ وہ چاہت کا رشتہ حیسیت سے ختم بھی کر سکتا ہے ۔
شرط صرف یہ ہے کہ وہ اس چاہت کو حاصل کرنے کا خد میں جنون بھی پیدا کرے اور اپنے ہنر و محنت سے اس پر بنا رکے کوشاں رہے۔
*****************************
چاہت،حیسیت اور حقیقت پر مزید غور کرنے کے لحاظ سے ایک نظم عرض کیا جاتا ہے؛ امید ہے پسند ایے-
اس نظم کے قلم کار ہیں مشہور شاعر جناب ندا فاضلی۔
*****************************
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کبھی زمیں تو کبھی آسماں نہیں ملتا
**
جسے بھی دیکھیے وہ اپنے آپ میں گم ہے
زبان ملی ہے مگر ہم زبان نہیں ملتا۔
کبھی کسی---
**
بجھا سکا ہے بھلا کون وقت کے شعلے
یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ہوتا۔
کبھی کسی---
**
تیرے جہاں میں ایسا نہیں کہ پیار نہ ہو
جہاں امید ہو اسکی وہاں نہیں ہوتا۔
کبھی کسی---
*******************************
راجیو رنجن پربھاکر۔
٢١.٥.٢٠٢٤
Comments